Daily News2233

Use these items for Healthier Heart

Use these items for Healthier Heart

If you eat the right food in the right way heart disease can be prevented. The healthy food you will find on this list will help boost the health of your cardiovascular system among many other benefits! They can be sourced in a natural way as well. Studies say that you can prevent issues like obesity, diabetes, and clogged arteries with a healthier diet. The following items that will give your heart the boost it needs.



Oranges

Don’t you think oranges are the best thirst-quenchers ever? Aside from that, they offer plenty of vitamin C, fiber, pectin, potassium, and nutrients. They will flush out sodium, neutralize dangerous proteins, and reduce blood pressure. You can ward off heart failure and heart scar tissue development.

Oranges



Kale

Kale is the best thing you can eat if you want to improve your heart. It will keep your heart healthy and prevent the onset of heart disease. After all, the leafy green has fiber, antioxidants, and omega-3 fatty acids. People like them a lot because they are low in both fat and calories as well.
Kale


Garlic

Garlic has earned a reputation for its ability to repel vampires. Aside from that, it tastes great and offers nutrients for your heart. You should know that it can keep your blood vessels healthy, prevent arterial plaque, and lower the level of enzymes in the body. It is available in pill form for your convenience.
Garlic


Chocolate

We all love chocolate, so it is great to hear that it can prevent heart disease, stroke, and other heart problems. It will bring down blood pressure, prevent hypertension, lower blood pressure levels, and boost blood vessel flexibility as well.
Chocolate


Lentils

Lentils offer a lot of health benefits. Research shows that you can prevent your heart disease and stroke risk if you eat a diet rich in legumes. Lentils have a lot of potassium, magnesium, and protein. They will keep your cholesterol, blood pressure, and blood vessel plaque in check.
Lentils


Almonds

They can boost your intelligence, memory, and heart health as well. They will lower the cholesterol in your body, prevent LDL absorption, and minimize the risk for heart disease. Snack on!

Almonds


Pomegranates

Pomegranates also offer a mix of antioxidants that will ward off cardiovascular disease and prevent arterial plaque oxidation.  You will be glad to hear that it is good at preventing stroke, diabetes, prostate cancer, and Alzheimer’s.
pomegranate

Blueberries

Blueberries are brimming with antioxidants and nutrients. Eat to enjoy its benefits like reducing cholesterol levels, blood pressure levels, and arterial plaque buildup. Did you know that they also lower your risk for heart disease and cancer?
Blue-Berry


Salmon

Salmon also called the ‘chicken of the sea’?  The oily fish is versatile and delicious. Aside from that, it has omega-3 fatty acids and nutrients that bring down triglyceride levels, make blood vessels flexible, prevent the formation of blood clots and keep the heart disease at bay.
Salmon-Fish


Turmeric

Turmeric has become a rising star because it adds a lot of flavors and does wonder for your body! This spice has curcumin, which is useful if you want to prevent heart enlargement. Aside from that, turmeric will also prevent obesity, unhealthy blood vessels, heart disease development, and high blood pressure.
Turmeric


Avocados

Did you know that avocados can walk the talk? Not only are they delicious, but it is true that they are very healthy. They are full of potassium, monounsaturated fats, and antioxidants. They will lower cholesterol, boost your heart health, and minimize your risk for heart disease.
Avocado


کھلاڑی کرکٹ میچ کے دوران اپنے چہروں پر سفید کریم کیوں لگاتے ہیں؟ جانیں دلچسپ وجہ


کھلاڑی کرکٹ میچ کے دوران اپنے چہروں پر سفید کریم کیوں لگاتے ہیں؟ جانیں دلچسپ وجہ



white-cream-on-face




کرکٹ میچ دیکھنے کے شوقین صرف مرد حضرات نہیں بلکہ خواتین، بچے اور نوجوان سب ہی ہوتے ہیں لیکن کیا کبھی اپ نے نوٹ کیا ہے کہ کھلاڑی میچ کے دوران اپنے چہروں پر یہ سفید کریم کیوں لگاتے ہیں؟
یہ سفید کریم آخر کیا ہے؟
یہ سفید کریم کوئی بیوٹی کریم یا فئیرنس کریم نہیں ہوتی بلکہ یہ کریم ایک کیمیکل زنک آکسائیڈ سے بنا ایک لیپ ہوتا ہے۔
اس زنک آکسائیڈ کو چہرے اور ہاتھوں پر کرکٹرز اس لئے لگاتے ہیں تاکہ میدان میں مستقل چھ گھنٹے یا جتنی دیر بھی میچ کھیلیں یہ سورج کی تپش اور تیز شعاؤں کے پڑنے کی وجہ سے نہ تو ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوں اور نہ ہی ان کی جلد کو کوئی نقصان پہنچے۔
اس کریم کو لگانے سے جسم ٹھنڈا رہتا ہے اور جلد پر کسی قسم کی نہ تو کوئی خارش ہوتی اور نہ کھچ کھچ، سوجن نہ جلن ہوتی۔
دورانِ میچ اس کریم سے نہ صرف جسم ٹھنڈا رہتا ہے بلکہ دماغ میں بھی ایک مصنوعی قسم کی ٹھنڈ پہنچتی ہے اور اس سے جسم کو توانائی ملتی رہتی ہے.

کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ کے دماغ سے اس حصہ کو نکال دیا جائے تو کیا ہوگا؟


کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ کے دماغ سے اس حصہ کو نکال دیا جائے تو کیا ہوگا؟



Brain



دماغ ہمارے جسم کا سب سے ضروری اور اہم حصہ ہے اس کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نہیں ہے اور اگر دماغ کو کچھ ہوجائے تو پورا جسم بے جان ہوجاتا ہے کیونکہ جسم کے جتنے بھی حصے ہیں ان تمام کو کام کرنے کی اہم ہدایت دماغ سے جاری ہوتی ہیں۔ اب بات یہ آتی ہے ہمارے ڈرنے کو بھی کیا دماغ ہی کنٹرول کرتا ہے۔
جی ہاں!! انسانی دماغ ایسی ملٹی فنکشنل مشین کی طرح کام کرتا ہے کہ جس میں اٹھنے، بیٹھنے یہاں تک کہ ہر ایک افعال کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہے۔ اور ڈرنے کا تعلق بھی دماغ سے ہی ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے دماغ کا ایک حصہ ایسا ہے کہ جسے ہم اگر دماغ سے نکال دیں تو چاہے کتنے ہی عجیب و غریب اور خطرناک حالات پیش آجائیں ہمیں کبھی بھی کسی صورت میں بھی ڈر نہیں لگے گا۔
ہے نہ حیرت کی بات؟
ہمارے دماغ میں امیگڈالا (Amygdala) نامی ایک حصہ پایا جاتا ہے جو انسان کی غیر سرگرمیوں یا ڈرنے کو کنٹرول کرتا ہے۔
اگر یہ حصہ ہمارے دماغ میں نہ ہو تو ہم کبھی نہیں ڈریں گے اور نہ ڈرنے کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
امیگڈالا صرف خوف یا ڈرنے کی صلاحیت پرقابو نہیں رکھتا بلکہ ساتھ ہی یہ غصہ، غم اور ایسے لمحات کو دماغ میں محفوظ رکھنے کا پابند ہے جن کی وجہ سے آپ کو کبھی ڈر لگا ہو یا آپ کا کوئی نقصان ہوا ہو۔
کچھ لوگوں کو ہر چیز میں ڈر لگنے لگتا ہے یہاں تک کہ مجمع کے سامنے کھڑے ہو کر بات کرنے سے جن کو ڈر لگتا ہے ان کو ہم کہتے ہیں کہ یہ پراعتماد نہیں ہے اس کا اعتماد بحال نہیں ہے لیکن دراصل حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں میں امیگڈالا زیادہ فعال ہوتا ہے۔
یہ دماغ کا ایسا حصہ ہے جس کا سائز عمر کے ساتھ اور انسان کی دلی کیفیات کے مطابق بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ کچھ افراد کا امیگڈالا زیادہ ڈر کی رطوبت خارج کرتا ہے جس سے لوگ ڈرے ڈرے رہتے ہیں۔

حرام_کوچھوڑنےکانتیجہ

حرام_کوچھوڑنےکانتیجہ


 دمشق کے ادیب‏ شیخ علی طنطاوی نے اپنی  یادداشتوں میں لکھا ہے کہ: دمشق میں ایک بہت بڑی مسجد ہے کہ جو  "مسجد جامع توبہ" کے نام سے مشہور ہے . اس مسجد کا نام مسجدتوبہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پہلے فحشاء ومنکرات کا مرکز تها .ساتویں ہجری میں ایک مسلمان بادشاه نے اس کو خرید کر وہاں ایک  مسجد تعمیر کرائی-
" ایک طالب علم کہ جو بہت زیادہ غریب, اور عزت نفس میں مشہور تها وہ اسی مسجد کے ایک کمرے میں ساکن تها-
 دو روز گزر چکے تھے کہ اس نے کچھ نہیں کھایا تھا اور اس کے پاس کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تهی اور نہ ہی کھانا خریدنے کے لیے کوئی پیسہ اس کے پاس تھا  ...
تیسرے روز بهوک کی شدت سے اس نے احساس کیا کہ وہ مرنے کے قریب ہے!
سوچنے لگا کہ اب میں اضطراری حالت میں ہوں کہ شرعا حتی مردار اور یا حتی ضرورت کے مطابق چوری جائز ہے.
اسی بنا پر چوری کا راستہ بہترین راه تهی.
شیخ طنطاوی کہتے ہیں:
یہ سچا واقعہ ہے اور میں ان لوگوں کو اچهی طرح جانتا ہوں اور اس واقعہ کی تفصیل سے اگاہ ہوں- اورمیں صرف حکایت بیان کرونگا نہ حکم  نہ ہی فیصلہ.
یہ مسجد ایک قدیمی محلہ میں واقع ہے اور وہاں تمام مکانات قدیمی طرز پر اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کی چھتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور چهتوں سے ہی سارے محلہ میں جایا جاسکتا ہے-
 یہ جوان مسجد کی چھت پرگیا اور وہاں سے محلہ کے گھروں کی طرف چل دیا پہلے گھر میں پہنچا تو دیکھا وہاں کچھ خواتین ہیں تو سر جهکاکے وہاں سے چلاگیا-
 بعد والے گهر پہنچا تو دیکها گهر خالی ہے لیکن اس گهر سے کھانے کی خوشبو آرہی ہے-
بهوک کی شدت میں جب کھانے کی خوشبو اس کے دماغ میں پہنچی تو آہن ربا کی مانند اس کو اپنی طرف کھینچ لیا. یہ مکان ایک منزل تها- چھت سے بالکونی اور پهر وہاں سے صحن میں کود گیا.
فورا باورچی خانے میں پہنچا - دیگچی کا ڈهکن اٹھایا تو اس میں بهرے ہوئے بینگن کا سالن تها-
ایک بینگن اٹهایا بهوک کی شدت سے سالن کے گرم ہونے کی بهی پرواہ نہیں کی-
 بینگن کو دانتوں سے کاٹا اور جیسے ہی نگلنا چاہا تو اسی وقت عقل اپنی جگہ واپس آگئی اور اس کا ایمان جاگ گیا-
اپنے آپ سے کہنے لگا :خدا کی پناہ !میں طالب علم ہوں لوگوں کے گهر میں گهسوں اور چوری کروں؟؟
اپنے اس فعل پر شرم آگئ ,پشیمان ہوا اور استغفار کیا اور پهر بینگن کو واپس دیگچی میں رکھ دیا .
 اور جیسے آیا تها ویسے ہی سراسیمہ واپس لوٹ گیا- اور مسجد میں داخل ہوکر شیخ کے حلقہ  درس میں حاضر ہوا- 
درحالیکہ بهوک کی شدت سے سمجھ نہیں پارہا تھا کہ شیخ کیا درس دے رہے ہیں؟
 جب شیخ درس سے فارغ ہوئے اور لوگ بهی متفرق ہوگئے، تو ایک خاتون مکمل حجاب میں وہاں آئی -
اس زمانے میں خواتین کا بغیر حجاب کے وجود نہیں تها.
شیخ سے کچھ گفتگو کی اور وہ طالب علم ان دونوں کی گفتگو نہیں سمجھ سکا ..
شیخ نے اپنے اطراف میں نگاہ کی تو اس طالب علم کے علاوہ کسی کو وہاں نہ پایا… پهر
اس کو آواز دی اور کہا: تم شادی شدہ ہو ؟
 جوان نے کہا: نہیں!
شیخ نے کہا: تم شادی نہیں کرنا چاہتے؟
جوان خاموش رہ گیا
شیخ نے پھر کہا: مجھے بتاؤ تم شادی کرنا چاہتے ہو یا نہیں؟
 اس جوان نے جواب دیا: خدا کی قسم میرے پاس ایک لقمہ روٹی کے لئے پیسے نہیں ہیں...
میں کس طرح شادی کروں؟
شیح نے کہا: یہ خاتون آئی ہے اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس کا شوہر وفات پاگیا ہے اور اس شہر میں بےکس ہے اور اس کا دنیا میں سوائے ایک ضعیف چچا کے کوئی عزیز و رشتہ دار نہیں ہے...
 اپنے چچا کو یہ اپنے ساتھ لیکر آئی ہے .. ..اور وہ اس وقت اس مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا ہے ...اور اس خاتون کو اس کے شوہر سے گهر اور مال ارث میں ملا ہے...
اب یہ آئی ہے اور ایسے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے جو شرعا اس کا شوہر اور اس کا سرپرست ہو- تاکہ تنہائی اور بدطینت انسانوں سے محفوظ رہے.
کیا تم اس سے شادی کروگے ؟
جوان نے کہا: ہاں.
اور پھر اس خاتون سے پوچھا: کہ تم اس کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کرتی ہو؟
اس نے بھی مثبت جواب دیا...
شیخ نے اس خاتون کے چچا اور دو گواہوں کو بلاکر ان دونوں کا عقد پڑھ دیا اور اس طالب علم کے بجائے خود اس خاتون کا مہر ادا کیا- اور پهر اس خاتون سے کہا: اپنے شوہر کا ہاتھ تھام لو.
اس نے ہاتھ تهام لیا اور اپنے گهر کی طرف اپنے شوہر کی رہنمائی کی ..
جب گهر میں داخل ہوئی تو اپنے چہرے سے نقاب ہٹادیا...
وہ جوان اپنی زوجہ کے حسن و جمال سے مبہوت ہوگیا!
اور جب اس گهر کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہی گھر ہے جس میں وہ داخل ہوا تها ....  زوجہ نے شوہر سے پوچها کہ تمہیں کچھ کهانے کے لئے لے آوں ؟
کہا: ہاں..
اس نے دیگچی کا ڈهکن اٹهایا اور بینگن کو دیکها اور بولی:  عجیب ہے گھر میں کون آیا تھا اور اس نے بینگن کو دانتوں سے کاٹا ہے ..؟! وہ جوان رونے لگا اور اپنا قصہ اس کو سنادیا...
زوجہ نے کہا: یہ تمہاری   امانت داری اور تقوی کا نتیجہ ہے تم نے حرام بینگن کهانے سے اجتناب کیا تو الله نے سارا گھر اور گھر کی مالکہ کو حلال طریقے سے تمہیں دیدیا..!.
 بہت خوبصورت اور قابل تامل...
.
PayWao.com
#سبحان_الله!
جو کوئی الله کی خاطر کسی گناہ کو ترک کرے اور تقوی اختیار کرے تو
الله اس کے مقابل میں بہتر چیز اس کو عطا کرتا ھے۔

غازی ارطغل کون تھا؟


غازی ارطغل کون تھا؟

Ghazi-Ertugal


ارتغل غازی سلطنت عثمانیہ کے بانی ہے , آپکی پیدائش 1191 عیسوی میں ہوئی اور وفات 1280 عیسوی میں کچھ کتابیں 1281 بتاتے ہیں, آپ ہی کے تین بیٹے تھے گندوز, ساؤچی اور عثمان اور آپکے تیسرے بیٹے عثمان نے 1291 یعنی اپنے والد ارتغل کی وفات کے 10 سال بعد خلافت بنائی اور ارتغل کے اسی بیٹے عثمان کے نام سے ہی خلافت کا نام خلافت عثمانیہ رکھا گیا لیکن سلطنت کی بنیاد ارتغل غازی رح رکھ کر گئے تھے ….
اسکے بعد اسی سلطنت نے 1291 عیسوی سے لیکے 1924 تک , 600 سال تک ان ترکوں کی تلواروں نے امت مسلمہ کا دفاع کیا. اس کے ساتھ مسجد نبوی. گنبد خضریٰ اور مسجد حرام کی جدید تعمیر . سیدنا امیر حمزہ کا مزار . مکہ مکرمہ تک ایک عظیم الشان نہر .  آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پرانوار کے گرد سیسہ پلائی دیوار .  مکہ مکرمہ تک ٹرین منصوبہ جیسے عظیم کارنامے سرانجام دیے. ارتغل غازی کا خاندان وسطہ ایشیا سے یہاں آیا تھا اور انکے جدِ امجد اوغوز خان Oghuz khan کے بارہ بیٹے تھے جن سے یہ بارہ قبیلے بنے جن میں سے ایک یہ قائی قبیلہ Kayi تھا جس سے ارتغل غازی تعلق رکھتا تھا آپکے والد کا نام سلیمان شاہ تھا, ارتغل غازی کے تین اور بھائی تھے, صارم, ذوالجان اور گلدارو ,آپکی والدہ کا نام حائمہ تھاآپکا قبیلہ سب س پہلے وسطہ ایشیا Central asia  سے ایران پھر ایران سے اناطولیہ Anatolia آئے تھے منگولوں کی یلغار سے نمٹنے کےلئے..... جہاں سلطان علاو الدین جو سلجوک Seljuk سلطنت کے سلطان تھے اور یہ سلجوک ترک سلطنت سلطان الپ ارسلان Sultan Alap Arslan نے قائم کی تھی 1071 میں byzantine کو battle of Manzikert میں عبرت ناک شکست دے کے اور سلطان الپ ارسلان تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھی اور اسی سلطنت کا آگے جاکے سلطان علاؤ الدین بنے تھے…..
اسی سلطان علاوالدین کے سائے تلے یہ 12 قبیلے اوغوز خان Oghuz khan رہتے تھے, اور اس قائی قبیلے کے چیف ارتغل بنے اپنے والد سلیمان شاہ کی وفات کے بعد, سب سے پہلے اہلت Ahlat آئے تھے پھر اہلت سے حلب Aleppo گئے تھے 1232 جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے الغزیز کی حکومت تھی, سب سے پہلے ارتغل نے العزیز کو اس کے محل میں موجود غداروں سے نجات دلائی پھر اس سے دوستی کی پھر سلطان علاو الدین کی بھتیجی حلیمہ سلطان سے شادی کی.... جس سے آپکو تین بیٹے ہوئے اوپر جو میں نے نام دیے ہیں, ایوبیوں اور سلجوقیوں کی دوستی کروائی, صلیبیوں کے ایک مضبوط قلعے کو فتح کیا جو حلب کے قریب تھا, اسکے بعد ارتغل سلطان علاو الدین کے بہت قریب ہوگیا.  ا س کے بعد منگولوں کی یلغار قریب ہوئی تو ارتغل غازی نے منگول کے ایک ایم لیڈر نویان کو شکست دی ,نویان منگول بادشاہ اوکتائی خان کا Right hand تھا ,اوکتائی خان چنگیز خان کا بیٹا تھا اور اس اوکتائی کا بیٹا ہلاکو خان تھا جس نے بغداد کو اس قدر روندا تھا کہ بغداد کی گلیاں خون سے بھر گئی تھیں دریائے فرات سرخ ہو گیا تھا

اسی نویان کو شکست ارتغل نے دی تھی
اور پھر ارتغل غازی اپنے قبیلے کو لیکے سوغت Sogut آئے بلکل قسطنطنیہ Contantinople کے قریب, اور پہلے وہاں بازنطین Byazantine کے ایک اہم قلعے کو فتح کیا اور یہیں تمام ترک قبیلوں کو اکٹھا کیا اور سلطان علاو الدین کے بعد آپ کے بیٹے غیاث الدین سلطان بن گئے انکی بیٹی کے ساتھ ہی عثمان کی شادی ہوئی ایک جنگ میں    سلطان غیاث الدین شہید ہو گئے تو عثمان غازی سلطان بن گئے اور انکی نسل سے جاکے سلطان محمد فاتح رح تھے جس نے 1453 میں جاکے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور اسی پے حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی غیبی خبر پوری ہوئی……
تاریخ میں ارتغل غازی جیسے جنگجو بہت کم ملتے ہیں لیکن ہماری نسل انکو جانتی نہیں بہت بہادر جنگجو تھے آپ
 ہر واریئر جنگجو اسلام میں گذرا اس پہ جس نے کچھ نہ کچھہ اسلام کے لیئے کیا اس کا ایک روحانی پہلو ضرور ہے, اسکے پیچھے ایک روحانی شخصت ضرور ہوتی ہے جسکی ڈیوٹی اللہ پاک نے لگائی ہوتی ہے تاریخ اٹھا لیں بھلے اسلام کے آغاز سے لیکے اب تک آج بھی اگر کوئی اسلام کے لیئے امت مسلمان کے لیئے کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے تو اسکا روحانی پہلو بھی ضرور ہوگا….
PayWao.com
اس جنگجو ارتغل غازی کے پیچھے اللہ پاک نے ڈیوٹی لگائی تھی وہ شیخ محی الدین ابن العربی رح تھے  ( آپ درجنوں کتب کے مصنف ہیں اس کے ساتھ آپ نے قرآن پاک کی مایہ ناز تفسیر بھی لکھی علم کی دنیا کے بادشاہ جانے جاتے تھے اور تصوف میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے)  جو اندلس سے ارتغل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے.
امام ابن العربی نے ارتغل غازی کو دو مرتبہ موت کے منہ سے نکالا اور ہروقت ارتغل کی روحانی مدد کرتے رہتے تھے  اللہ پاک ارتغل غازی کا رتبہ بلند فرمائے اور ہزاروں رحمتیں ہوں ان پے
آمین.

میلکم ایکس امریکی پادری کے گھر پیدا ہونے والے ایک مسلمان کی داستان حیات،ایک مسلم ہیرو کی کہانی.


میلکم ایکس
امریکی پادری کے گھر پیدا ہونے والے ایک مسلمان کی   داستان حیات،ایک مسلم ہیرو کی کہانی.

MelkumEx

وہ ایک سیاہ فام امریکی پادری کے گھر پیدا ہوئے،چھ سال کی عمر میں ان کے والد کو سفید فام امریکیوں نے ٹرین کی پٹری میں رکھ کر بے دردی سے ان کا سر کچل دی ان کی والدہ 34 سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی والدہ پر آٹھ بچوں کی کفالت کا بوجھ آ پڑا،والدہ نے سفید فام امریکیوں کے گھروں میں کام کاج شروع کر دیا انہیں سیاہ فام ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد کام سے فارغ کر دیا جاتا  وہ گھر گھر کی دہلیز پر دستک دے کر تھک چکی تھی کہیں کام نہیں مل رہا تھا گھر میں بچے فاقے کاٹ رہے تھے،اس صورتحال نے انہیں ذہنی مریض بنا دیا انہیں ہسپتال داخل کرایا گیا ہسپتال سے پاگل خانے بھیجا گیا جہاں 26 سال وہ پاگلوں کے ساتھ رہی. بچین میں یتیمی،ممتا کی زخمی روح اور بالآخر ماں کا پاگل ہونا ان دکھوں بھرے حالات کی آغوش میں میلکم ایکس کا بچپن گزر رہا تھا،سفید فاموں کے ہاتھوں والد کے قتل نے انہیں سوچنے پر مجبور کیا تھا وہ گھنٹوں تنہائی میں بیٹھ کر سوچتا کہ میرے والد کا سیاہ فام ہونا اتنا بڑا جرم تھا کہ انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا؟ اسی کشمکش میں وہ سکول میں داخل ہوئے،وہ ایک ذہین اور فطین طالب علم تھے لیکن سکول میں بھی طلبہ اور اساتذہ کا رویہ انتہائی ہتک آمیز ہوتا تھا،ان کی سیاہ رنگت اساتذہ کی نظر میں انہیں بے توقیر کر رہی تھی،وہ اساتذہ کے دل میں اپنی قابلیت سے جگہ نہ بنا سکے ،ایک دن کلاس میں استاد نے پوچھا کہ کس نے کیا بننا ہے کسی نے ڈاکٹر کسی نے انجنئیر اور کسی نے کہا میں پائلٹ بننا چاہتا ہوں مالکوم إكس کی باری آئی تو انہوں نے جواب دیا میں وکیل بنوں گا استاد سمیت پوری کلاس ہنس پڑی،استاد نے بڑی حقارت سے کہا کہ تم وکیل نہیں بن سکتے تم بڑھی بنو گےمیلکم ایکس نے ساتھی طلبہ اور اساتذہ کے طعنوں اور رویے سے دل برداشتہ ہو کر سکول چھوڑ دیا،کچھ عرصہ جاب کی تلاش میں مختلف شہروں کی خاک چھانی انہیں کہیں بھی عزت کی نوکری دینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا،کچھ مہینے کلب میں  بوٹ پالش کئے .حالات کے جبر سے تنگ آکر انہوں نے جرم کی دنیا میں قدم رکھا،شراب، شباب، کباب ان کا مشغلہ بن گیا، رقص و سرور کی محفلیں،موسیقی کی جھنکار اور پائل کی چھنکار میں وہ سکون تلاش کرنے لگے،منشیات فروشوں کی سوسائٹی نے انہیں ایک مجرم اور ڈاکو بنا ڈالا ایک دن پولیس نے گرفتار کیا ،عدالت میں پیشی ہوئی اور 10 سال کے لئے جیل .ان کو قید تنہائی میں ڈالا گیا،بعد ازاں ایک جیل سے دوسری جیل اور دوسری سے تیسری جیل منتقل کیا جاتا رہا ،اسی دوران ان کی ملاقات جیل میں ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے مالکوم إكس کو یہ پٹی پڑھائی کہ عیسائیت سفید فاموں کے لئے ہے جب کہ دین اسلام سیاہ فاموں کا دین ہے انہی افکار کے ساتھ مالکوم نے اسلام قبول کرلیا . جیل سے رہائی کے بعد وہ حج کے لئے آئے،منی عرفات اور مزدلفہ،طواف سعی اور رمی میں انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہاں تو لاکھوں سفید فام بھی ہیں،اسی دوران مالکوم إكس نے سعودی علماء کرام سے ملاقات کی،دین اسلام کے صحیح تصور کو سمجھا، شاہ فیصل مرحوم نے انہیں بلا کر خصوصی طور پر ان کی تکریم کی.
میلکم ایکس واپس امریکہ لوٹا تو ان کی زندگی میں اک انقلاب آ چکا تھا وہ بالکل بدل چکا ہے،انہوں نے عربی زبان سیکھنی شروع کر دی،دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا،ہزاروں  لوگ ان کے ہاتھ مسلمان ہوئے،یہ ایک بہترین سپیکر بھی تھے بہت جلد امریکی میڈیا میں انہیں پذیرائی مل گئی،انہوں نے سیاہ فاموں کے حقوق کے لئے بھی توانا آواز بلند کی،اسلام کی خوبصورتی اور فلسفہ سے اپنے مخاطبین کو روشناس کرایا ،لوگوں کو سمجھایا کہ روئے زمین میں اسلام ہی وہ سچا دین ہے جو رنگ ،نسل اور علاقہ کی بنیاد پر انسانوں میں فرق نہیں کرتا ہے،ان کی مقبولیت چہار سو پھیل گئی لوگ دور دور سے ان سے ملنے اور ان کو سننے کے لئے آتے تھے 21 فروری 1965 جب وہ ایک اجتماع میں لیکچر دے رہے ان کے سینے میں 6 گولیاں مار کر انہیں شہید کیا گیا تب ان کی عمر صرف 40 سال تھی،امریکہ میں سیاہ فاموں کو حقوق ملنے اور اسلام کی صحیح دعوت کے پھیلاؤ میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے .ان کی شہادت کے بعد کئی ممالک میں ان کے نام پر تعلیمی اداروں اور سڑکوں کے نام رکھے گئے.

لیکن

ہم میں سے کس کس کو اس مسلم ہیرو کے بارے آگاہی تھی؟ یا کس کس نے ان کا نام سنا تھا ؟ آج ہالی وڈ بالی وڈ اور لالی وڈ  سے لیکر فنکاروں،گلوکاروں، کھلاڑیوں کے متعلق ہم سب چھوٹی چھوٹی باتیں جانتے ہیں مگر نہیں معلوم تو بس اپنے ہیروز سے متعلق ہمیں نہیں معلوم ....

Coronavirus: The controversy over 'India's first virus fatality'

Coronavirus: The controversy over 'India's first virus fatality'

Muhammad-Hussain-Siddiqui
In the above pictures, Muhammad Husain Siddiqui, wearing a brimless cap and brown tunic, is peering into the camera.
It is the last day of February. Siddiqui has been returned to India after a month-long stay with his younger son, who works as a dentist in Jeddah, Saudi Arabia.
The 76-year-old Islamic scholar and judge look visibly tired. His family driver gave him a bouquet and he accepts it outside the airport. 
They get into their Chevrolet sedan, and head home to Gulbarga some 240km (150 miles) away in neighboring Karnataka state. They took lunch and tea breaks and drive past forts and cotton farms on a journey took four hours.
"My father said he was fine. He seems good, having spent a month with my brother and his family. He asked about his eldest son, Hamid Faisal Siddiqui.

10 days later, Siddiqui was dead - India's first official Covid-19 fatality.
He first began feeling sick after his return. He died three days later due to gasping for air in a moving ambulance. Worried family members had ferried him between two cities and four hospitals in less than two days. after four hospitals rejection, he died on his way to the fifth, where he was declared "brought dead".
The day after Muhammad Siddiqui died, authorities announced that he had tested positive for the Corona-virus.
Ahmed Faisal Siddiqui said, "We still do not believe he died of Covid-19. We haven't even got the death certificate," 

Siddiqui

In many ways, the story of Muhammad Siddiqui's death underlines the chaos and confusion often marring the treatment of Covid-19 patients in India.
Siddiqui was fine on his return to his two-story home in Gulbarga, where he lived with his eldest son and his family.
He had given up working five years ago. His wife had died from cancer since then. He mainly spent his time in his well-appointed office room with its book-lined shelves his friends saidGhulam Gouse,  said, He was also the caretaker of the biggest local mosque. and also he was a generous and erudite man.
On the 7th of March, he complained he was sick. The next morning, he coughing violently and asking for water.
The family doctor, a 63-year-old a local physician had arrived promptly, given him a tablet for a cold and gone away.
The cough worsened and that night he slept fitfully. Now, he also had a fever.
On the morning of 9 March, the family took Muhammad Siddiqui to a private hospital in Gulbarga, where he spent 12 hours under observation.
Here is where the story gets confusing.
Siddiui's-family&friends
The discharge note from the private hospital says Siddiqui was suffering from pneumonia in both lungs provided to the family The examining doctor wrote that the patient also suffered from hypertension,. He referred him to a leading super-specialty hospital in Hyderabad for "further evaluation" - but did not mention a suspected Covid-19 infection.
However, a statement+released after his death by India's health ministry, says the hospital in Gulbarga "provisionally diagnosed" him as a "suspected Covid-19 patient".
The statement also says a swab the sample was taken from Siddiqui during his stay in the hospital and sent to the city of Bangalore, 570km (354 miles) away, to test for the virus.
It then put the blame on the patient's family for moving him out of the Gulbarga hospital.
"Without waiting for the test results," the statement said, "the attendees [of the patient] insisted [on taking him away] and the patient was discharged against medical advice and attendees took him to a private hospital in Hyderabad."
Hamid Faisal Siddiqui said."I don't know why we are being blamed for this. If they told us to keep my father here, we would have taken him to the local government hospital. We went by what the private hospital told us and we have evidence of that," 
But senior district officials I spoke to maintained that they had asked the family to agree to move Siddiqui to a local government hospital which had a designated Covid-19 ward. "But the family members were adamant about taking him away," an official said.
On 10 March, Siddiqui was wheeled out on a gurney and put into an ambulance where a paramedic gave him oxygen and hooked him up to an IV. His son, daughter, and son-in-law accompanied him.
They drove through the night and reached Hyderabad the next morning.
Gulbergfort

There they moved Siddiqui from one hospital to another seeking treatment.
A neurological clinic denied admission and referred the patient to a government hospital in Hyderabad that had a designated Covid-19 ward. The family waited there for an hour. "No the doctor showed up, nobody turned up, so we moved again", a family member said.
Siddiqui was slowly sinking in the sweltering ambulance.
They finally took him to the super-specialty hospital.
Doctors examined him for a couple of hours. They noted that the patient "had been coughing for two days, followed by shortness of breath for two days". He had been given paracetamol, nebulizer, and was on IV fluids. They "advised admission for further evaluation".
But, the hospital noted in its discharge note, that the "patient attendant was not willing for admission for further evaluation despite risks [to the patient] being explained".
Again, the family insists that was not quite true. They said the super-specialty hospital asked them to "take the patient back to the government hospital, have him tested there for coronavirus and come back".
"We were so confused, we left the place and decided to return to Gulbarga," a family member said.
When the ambulance returned to Gulbarga early next morning, Siddiqui had stopped breathing. After traveling more than 600km (372 miles) on the road, he had given up.
Gulberg
"From the day of onset of symptoms until his death, the patient has not visited any government facility," the official report on his death said.
The next day, his son says, they found out "from TV that my father had become India's first coronavirus casualty". In the afternoon, they buried him quietly in a family graveyard.
Since Siddiqui's death, Gulbarga has reported more than 20 cases and two more deaths from COVID-19. Siddiqui's 45-year-old daughter and the family doctor were among those who tested positive. (They have recovered.)
More than 1,240 people are under home and hospital isolation. A total of 1,616 samples had been tested by Monday morning.
"Give me some water, I am feeling thirsty. Take me home," Siddiqui had told his son in the ambulance that fateful night.
His family returned home, but he didn't make it.

Use these items for Healthier Heart

Use these items for Healthier Heart If you eat the right food in the right way heart  disease can be prevented . The healthy food you wi...